Tuesday 19 January 2016

ٹوٹنے والے بکھر کے بھی ؑؑصدا نہیں دیتے


ٹوٹنے والے بکھر کے بھی ؑؑصدا نہیں دیتے
مِٹا دیتے ہیں اپنی ہستی کو دغا نہیں دیتے

درد تو دیتے ہیں یہ درد کا درماں بن کر
دردِ دل کی مگر  کبھی دُعا نہیں دیتے

اُجاڑ دیتے ہیں سارا ہی چمن یہ زمانے والے
مہکتے ہوۓ پھولوں کومگر رِدا نہیں دیتے

عجب دستور دیکھا ہے ھم نے اس سنسار کا
امیر کو ملیں جھک کر غریب کو آسرا نہیں دیتے

صیاد دیتے ہیں حکمِ رھائی  ترسا ترسا کر یہاں
قید میں پرندوں کو مگر یہ دانہ دُنکا نہیں دیتے

ھمارے دیس میں بھٹک رہی ہے قوم ساری
منزلِ راہ کا پتہ ھمارے راہ نما نہیں دیتے

دے دیتے ہیں بے بہا خزانِ تسلی اور دعاؤں کے
سہارا مانگوں ان سے تودستِ دُعا نہیں دیتے

بیگناہ یہاں سولی پے تو چڑھا دیتے ہیں منصف
قاضیِ شہر مقتول کا مگر خون بہا نہیں دیتے

ڈبو دیتے ہیں بیچ منجدھار میں نا خدا ھمارے
کسی پیاسے کو مگر یہ آبِ دریا نہیں دیتے

امن تو اب خواب ہو گیا میری دھرتی ماں کا
ماں کو اس کے بیٹے ظلم کے ماسوا نہیں دیتے

چھین لیتے ہیں غریب کے کھیت کھلیان مگر
کسی بھوکے کو پیٹ بھر کرغزا نہیں دیتے

نہیں دیتے تو بس جینے کا حق نہیں دیتے ساجن 
ورنہ سخاوت کے دعوےدار کیا کیا نہیں دیتے

  ( عبدالرؤف ساجن )







No comments: